يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا
آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے ہوں گے تم دس دن کے سوا نہیں ٹھہرے۔
تفسیر طبری میں ہے۔ اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہوگا، مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑی ہو رہی ہوں گی ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو تم بہت ہی کم رہے۔ ہم ان کی اس راز داری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں۔ جب ان میں سے ایک بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دس دن بھی کہاں کے؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے۔ غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک خواب کی طرح معلوم ہوگی۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ایک ساعت ہی تو تم دنیا میں ٹھہرے ہوگے۔ فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہی لیکن اس بات کو اگر پہلے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر، اس تھوڑی کو بہت پر مقدم اور پسند نہ کرتے۔ بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے۔