وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي
اور بلاشبہ یقیناً ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم! بات یہی ہے کہ اس کے ساتھ تمھاری آزمائش کی گئی ہے اور یقیناً تمھارا رب رحمان ہی ہے، سو میرے پیچھے چلو اور میرا حکم مانو۔
جب یہ لوگ گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہونے لگے تو ہارون علیہ السلام نے بروقت انھیں تنبیہ کی تھی یہ بچھڑا قطعاً تمھارا الٰہ نہیں ہے۔ تمھارا الٰہ صرف وہی ذات ہو سکتی ہے۔ جو تمھارا خالق و مالک اور تمھارا پروردگار ہے۔ لہٰذااس گؤ سالہ پرستی سے باز آؤ اور میری بات مان لو اور سامری کے فریب میں نہ آؤ۔ مگر یہ مدتوں سے بگڑی ہوئی قوم بھلا ہارون جیسے نرم مزاج آدمی کے حکم کو کیا سمجھتی تھی؟ کہنے لگے تم آرام سے بیٹھو او راپنی خیر مناؤ۔ موسیٰ آئے گا تو دیکھا جائے گا سردست ہم اس کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ لڑنے مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔