قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ
انھوں نے کہا ہم نے اپنے اختیار سے تیرے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی اور لیکن ہم پر لوگوں کے زیوروں کے کچھ بوجھ لاد دیے گئے تھے تو ہم نے انھیں پھینک دیا، پھر اس طرح سامری نے (بنا) ڈالا۔
قوم کا گؤ سالہ پرستی پر عذر لنگ: قوم نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے سوالوں کا جواب یہ دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ یہ غلطی سے ہم سے اضطراری طور پر ہو گئی۔ آگے اس کی وجہ بیان کی کہ جو زیورات ہمارے پاس فرعونیوں سے مستعار لیے ہوئے تھے اس طویل سفر میں زیورات کا بوجھ ہمارے لیے ناقابل برداشت بن گیا تھا اور یہ بھی کہ یہ ان کے لیے جائز نہیں تھے، چنانچہ انھیں جمع کرکے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ (سامری نے بھی کچھ ڈالا اور وہ مٹی تھی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے بھری تھی) پھر اس نے تمام زیورات کو تیار کر کے اس کا بچھڑا بنا دیا۔ (تفسیر طبری: ۱۸/ ۳۵۵) میں ہے۔ سامری نے حضرت ہارون علیہ السلام سے کہا: آئیے اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے۔ آپ نے دعا کی، آپ کو کیا خبر تھی ۔ اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا بچھڑا بن جائے۔ جس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلے، چنانچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث بن گیا۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔ سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور کہنے لگے کہ اصل میں ہمارا اور موسیٰ کا بھی الٰہ تو یہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام پتا نہیں طور پر کیا لینے گیا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ ہمارے اختیارسے باہر ہو گیا اور اکثریت کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی یہی راہ اختیار کرنا پڑی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان بدبختوں کو اتنی بات بھی سمجھ نہ آئی کہ اگر اس میں سے بچھڑے کی سی آواز نکلتی بھی ہے تو کیا وہ ان کے سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ بلکہ وہ تو سنتا بھی نہیں اور جو چیز نہ سن سکے نہ جواب دے سکے وہ کسی کا کیا بگاڑ اور کیا سنوار سکتی ہے؟ نیز وہ الٰہ کیسے ہو سکتی ہے؟