يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ
اے بنی اسرائیل! بے شک ہم نے تمھیں تمھارے دشمن سے نجات دی اور تمھیں پہاڑ کی دائیں جانب کا وعدہ دیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا۔
یہاں کئی تفصیلات کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے جو دوسرے مقامات پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جو بڑے بڑے انعامات کیے تھے انھیں یاد دلایا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ کہ انھیں دشمنوں سے نجات دی اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کو ان کے دیکھتے ہوئے دریا میں ڈبو دیا ایک بھی ان میں سے باقی نہ بچا۔ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مدینے کے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انھوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کوان پر کامیاب کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر تو تمھاری بہ نسبت ہمیں ان سے زیادہ قرب ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس دن کے روزے کا حکم دیا۔‘‘ (بخاری: ۴۷۳۷) پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور کے دائیں جانب کا وعدہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے اور پیچھے سے بنی اسرائیل نے گؤ سالہ پرستی شروع کر دی۔ جس کا بیان ابھی آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ من و سلویٰ اُتارنا: اسی طرح ایک احسان ان پر یہ کیا کہ انھیں من و سلویٰ کھانے کو دیا۔ من ایک میٹھی چیز تھی جو ان کے لیے آسمان سے اترتی تھی اور سلویٰ ایک قسم کے پرندے تھے جو بحکم اللہ ان کے سامنے آجاتے تھے یہ بقدر ایک دن کی خوراک کے انھیں لے لیتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ہماری یہ دی ہوئی روزی کھاؤ اور حد سے گزر نہ جاؤ۔ حرام چیز یا حرام ذریعہ سے اسے طلب نہ کرو۔ ورنہ میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب اُترے یقین مانو کے وہ بدبخت ہوگیا۔ (بخاری: ۱۱۳۰)