فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ
پس فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انھیں سمندر سے اس چیز نے ڈھانپ لیا جس نے انھیں ڈھانپا۔
فرعونیوں کا تعاقب: چنانچہ آپ نے یہ کہہ کر لکڑی ماری کہ اے دریا بحکم اللہ تو بٹ جا۔ اسی وقت اس کا پانی ادھر اُدھر مثل بڑے بڑے پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں سے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا۔ فرعون اور اُس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے، فرعون نے حکم دیا کہ انھی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ۔ چنانچہ وہ چیختا کودتا مع لشکر کے ان ہی راہوں میں اُتر پڑا۔ ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم دیا گیا اور چشم زدن میں تمام فرعونی ڈوبنے لگے اور دریا کی موجوں نے انھیں چھپا لیا۔ یہاں جو فرمایا گیا کہ انھیں اس چیز نے ڈھانپ لیا جسے ڈھانپنے کا حق تھا یہ اس لیے کہ یہ مشہور و معروف ہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے۔ بنی اسرائیل پر احسان: یعنی اس طرح رب تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بیک وقت تین احسان فرمائے۔ (۱) فرعونیوں سے نجات (۲)سر پر کھڑی موت کے بعد زندگی (۳)دشمن کی مکمل طور پر ہلاکت۔ اور یہ واقعہ ۱۰ محرم کو پیش آیا تھا۔