وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جو لوگ تم میں سے فوت کیے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ (بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے اور دس راتیں انتظار میں رکھیں، پھر جب اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو وہ اپنی جانوں کے بارے میں معروف طریقے سے کریں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو پوری طرح باخبر ہے۔
سوگ منانے کی مدت و حکمت: عام حالت میں بیوہ کی عدت چارماہ دس دن ہے۔ لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت و ضع حمل تک ہے اور یہی مدت بیوہ کے سوگ منانے کی مدت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کو جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہے۔ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے اپنے شوہر کے۔ جس پر اُسےچار ماہ دس دن سوگ منانا ہے۔(بخاری: ۵۳۳۴) ان دنوں میں عورت کو زیب و زینت كی حتیٰ کہ سرمہ لگانے کی بھی اجازت نہیں اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں۔ عدت کی مصلحت: یہ مدت اللہ تعالیٰ نے اس لیے مقرر فرمائی کہ معلوم ہوسکے کہ عورت کو اپنے پہلے خاوند سے حمل تو نہیں۔ اگر حمل ہو تو مدت عدت وضع حمل تک ہوگی تاکہ نسب میں فرق واقع نہ ہو اس کے بعد وہ نکاح کرسکتی ہے۔ نکاح کرنا: عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے نکاح کی بات چیت کرسکتی ہے۔ زیب و زینت کرسکتی ہے خوشبو لگاسکتی ہے کسی اور جگہ منتقل ہوسکتی ہے جو کچھ وہ اپنے حق میں بہتر سمجھے سب کچھ جائز ہے اور اس کے نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالنی چاہیے اور نہ ہی اس کا تم پر کوئی گناہ ہے۔