إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ
جب تیری بہن چلی جاتی تھی، پس کہتی تھی کیا میں تمھیں اس کا پتا دوں جو اس کی پرورش کرے؟ پس ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے۔ اور تو نے ایک شخص کو قتل کردیا تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور ہم نے تجھے آزمایا، خوب آزمانا، پھر کئی سال تو مدین والوں میں ٹھہرا رہا، پھر تو ایک مقرر اندازے پر آیا اے موسیٰ !
فرعون کے ہاں موسیٰ کی تربیت: چنانچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھیے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بے شمار بچوں کو قتل کروا چکا تھا تاکہ وہ زندہ نہ رہے۔ اسی بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی گود میں پلوا رہا تھا اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ اور اس کی اجرت بھی موسیٰ علیہ السلام کے اسی دشمن فرعون سے وصول کر رہی ہے۔ فَسُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَکُوْتِ وَالْکِبْرِیَآءِ وَالْعَظَمَۃِ یہ اس وقت ہوا جب ماں نے تابوت سمندر میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا ذرا دیکھتی رہو کہ یہ کہاں جا کر کنارے لگتا ہے اور کیا معاملہ اس کے ساتھ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پہنچ گئے شیر خوارگی کا عالم تھا۔ چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کسی کا دودھ نہ پیتے۔ موسیٰ کی بہن سارا منظر خاموشی سے دیکھ رہی تھی بالآخر اس نے کہا میں تمھیں ایسی عورت بتلاتی ہوں جو تمھاری یہ مشکل دور کر دے گی۔ چنانچہ وہ اپنی ماں کو جو موسیٰ علیہ السلام کی اصلی اور حقیقی ماں تھی، بلالائی۔ جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کردیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی کا مارا جانا: یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے۔ ہوا یہ کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی نادانستہ طور پر مارا گیا تھا۔ آپ نے اسے صرف مکا مارا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی تو ہم نے تمھیں مدین کی راہ دکھائی اور اس کے نتیجہ میں جو تمھیں سزا کے طور پر اپنی موت کا خطرہ تھا اس سے نجات دی اس کے بعد بھی تم پر آزمائشوں کے کئی ادوار آئے۔ جن میں ہم تمھاری مدد کرتے رہے۔ تقدیر کے مطابق اسباب خود بنتے چلے جاتے ہیں: تم مدین میں ایک اجنبی مسافرتھے پھر ہم نے تمھارے لیے ایسے سامان مہیا کر دیے کہ تم مدین میں شعیب علیہ السلام کے پاس عزت کے طور پر رہنے لگے سالہا سال بکریاں چرائیں اس سے بھی تمھاری تربیت مقصود تھی پھر شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے تمھارا نکاح ہوا تو تمھاری یہ ضرورت بھی پوری ہوگئی۔ پھر مدین میں معینہ مدت گزارنے کے بعد تمھیں اپنے وطن جانے کا خیال آیا۔ سردیوں کی طویل اندھیری رات تم بال بچوں سمیت سفر کر رہے تھے تو راستہ بھول گئے اور اب تم آگ دیکھ کر ادھر آگئے ہو کہ راستہ کا اتا پتا معلوم کرو اور اپنے گھروالوں کے لیے کچھ آگ کے انگارے لے جاؤ۔ تو یہ سب کچھ اتفاقاً ہی نہیں ہوگیا۔ بلکہ تم ٹھیک ہماری مشیت اور اندارہ کے مطابق یہاں پہنچے ہو۔ ہمیں تم کو اس حال میں یہاں لانا مقصود تھا۔ اور تمھارے لیے حالات ہی ایسے پیدا کر دیے کہ تم از خود یہاں پہنچ گئے۔