اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ
فرعون کی طرف جا، بے شک وہ سرکش ہوگیا ہے۔
موسیٰ پہلے ہی مدین سے مصر کو جا رہے تھے راستہ میں یہ واقعہ پیش آگیا آپ کو نبوت عطا کی گئی اور دو معجزات عطا کرکے اللہ نے فرمایا اب جاؤ مصر کے بادشاہ فرعون کے پاس۔ فرعون نے حضرت موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علازہ ازیں اس کی سرکشی اور طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتیٰ کہ یہ دعویٰ کرنے لگا تھا اَناربکم الاعلیٰ ’’میں تمھارا بلند تر رب ہوں۔‘‘ کہتے ہیں کہ جب موسیٰ فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کے بجائے آگ کا انگارہ منہ میں ڈال لیا تھا۔ جس سے آپ کی زبان جل گئی اور اس میں کچھ لکنت پیدا ہو گئی۔ (ابن کثیر) جب اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں دو باتیں آئیں۔ ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے۔ دوسرا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا جس کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا، یعنی ایک فرعون کی عظمت و جباریت کا خوف۔ دوسرا، اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی: (۱) یا اللہ! ’’میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اُٹھا سکوں۔ (۲)میرے کام کو آسان کر دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ گھول دے تاکہ فرعون کے سامنے پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں۔ (۳)اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ سے بڑے تھے) بطور معاون و مدد گار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے۔ جس طرح ایک بادشاہ کا وزیر امور مملکت میں اس کا مشیر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہارون علیہ السلام کو میرا مشیر اور بوجھ اُٹھانے والا ساتھی بنا دے کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان بھی ہے۔ ہم دونوں مل کر تیری تسبیح و تقدس اور ذکر بھی کرتے رہا کریں گے۔