الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمھارے لیے حلال نہیں کہ اس میں سے جو تم نے انھیں دیا ہے کچھ بھی لو، مگر یہ کہ وہ دونوں ڈریں کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے۔ پھر اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں دے دے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں۔
اس آیت میں اس معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا ہے کہ مرد کے لیے صرف دوبار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا ۔ طلاق دینے کا یہ مسنون اور سب سے بہتر طریقہ ہے دومرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع ہوسکتا ہے مگر تیسری طلاق کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا۔ آدمی بار بار طلاق دے کر اس سے رجوع کرلیتا تھا۔ اس طرح نہ اسے بساتا تھا نہ آزاد کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیا۔ اور پہلی اور دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ الطلاق مرتین: یعنی دو طلاقیں نہیں فرمایا بلکہ طلاق دو مرتبہ فرمایا جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انھیں بیک وقت نافذ کردینا حکمت الہیہ کے خلاف ہے۔ خلع کا حق: یعنی اگر کوئی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہیے تو اس صورت میں خاوند اپنا دیا ہو مہر واپس لے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں عورت اگر اپنی جان چھڑوانا چاہتی ہے تو وہ کچھ دے دلا کر تنسیخ نکاح کرسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکیدکی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول وجہ کے خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بلا عذر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے گی وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گی۔ (ترمذی: ۱۱۸۷۔ مستدرك حاكم: ۲/ ۲۰۰، ح: ۲۸۰۹)