مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ
ہم نے تجھ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ تو مصیبت میں پڑجائے۔
قرآن اتنا ہی پڑھنا چاہیے جتنا دل کی خوشی سے پڑھا جائے۔ یعنی یہ قرآن اس لیے نہیں اُتارا گیا کہ آپ لوگوں کی ہدایت کے سلسلے میں سارے جہان کا درد سَر مول لے لیں۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں پھر جس کسی کے دل میں کچھ بھی اللہ کا خوف ہوگا وہ ضرور اس قرآن کی ہدایت کو قبول کرے گا اور یہ اس کے لیے یاد دہانی کا کام دے گا۔ اور جو لوگ اللہ سے بے خوف ہو چکے ہیں وہ اگر اس کی ہدایت قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پریشان نہ ہونا چاہیے اور نہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان کردینا چاہیے نزول قرآن کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت میں ڈالنا ہرگز نہیں۔ بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ ان دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رات کو کھڑے ہو کر بہت زیادہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی اس محنت اور ریاضت کو دیکھ کر کافر کہتے تھے کہ قرآن کیا اترا ہے بے چارے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مصیبت میں پڑ گئے۔ اس پر یہ آیت اتری۔ (بخاری: ۷۱، مسلم: ۱۰۳۷) اور کافروں کی بات کا جواب بھی دے دیا گیا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے یہ مصیبت نہیں بلکہ نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ رحمت ہے اور نور ہے۔ اور جو شخص جس قدر شوق و نشاط سے قرآن پڑھنا چاہیے اتنا ہی پڑھ لے۔ اگر کوئی زیادہ پڑھتا ہے تو وہ اپنی رضا و رغبت سے پڑھتا ہے۔ محنت اور مشقت سمجھ کر نہیں۔