وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا
اور اللہ ان لوگوں کو جنھوں نے ہدایت پائی، ہدایت میں زیادہ کرتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب کے اعتبار سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے کہیں اچھی ہیں۔
ہر واقعہ مومن کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔ کافروں کی تو خوشحالی سے آزمائش ہوتی ہے اور ہر نعمت اور خوشحالی کے موقعہ پر ان کی گمراہی میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس مومنوں کے لیے ہر آزمائش مزید ہدایت کا سبب بن جاتی ہے۔ کوئی بھلائی اور نعمت ملے تو وہ اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دکھ پہنچے تو صبر و استقلال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے باقی رہنے والی نیکیاں۔ اجر و ثواب کے لحاظ سے اور انجام اور بدلے کے لحاظ سے نیکیوں کے لیے یہ بہتر ہیں۔ ابن ماجہ میں مروی ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک درخت تلے بیٹھے ہوئے تھے اس کی شاخ پکڑ کے ہلائی تو سوکھے ہوئے پتے جھڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو اسی طرح انسان کے گناہ لااِلٰہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ و الحمداللہ کہنے سے جھڑجاتے ہیں۔ اے ابودرداء ان کا ورد رکھ۔ اس سے پہلے کہ وہ وقت آجائے کہ تو انھیں نہ کہہ سکے، یہی باقیات صالحات ہیں، یہی جنت کے خزانے ہیں۔‘‘ (مسند احمد: ۱/۷۱)