فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔
نماز کی اہمیت اور تعلق باللہ: انعام یافتہ بندگان کا ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیاجا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکامات سے غفلت و اعراض کرنے والے ہیں۔ ارکان اسلام میں سب سے زیادہ اہم رُکن نماز ہے۔ جس سے ایک مسلمان کا اللہ سے تعلق قائم رہتا ہے اگر نماز چھوڑ دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ سے انسان کا تعلق منقطع ہو گیا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا۔ اسی لیے نماز ادا کرنے کی تاکید قرآن و سنت میں بار بار کی گئی ہے حتیٰ کہ نماز نہ مریض کو معاف ہو سکتی ہے نہ سفر میں نہ میدان جنگ میں۔ مختلف حالات کے مطابق شریعت نے رخصتیں تو دی ہیں مگر نماز کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ نمازوں کے ضائع کرنے سے مراد۔ یہ نہیں کہ انھوں نے نماز چھوڑ دی تھی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے۔ (مسلم: ۸۲) بلکہ نما زکو جماعت سے ادا نہ کرنا بروقت ادا نہ کرنا، سستی اور بے دلی سے ادا کرنا، بغیر سوچے سمجھے جلدجلد ٹھونگیں مار لینا وغیرہ وغیرہ سب باتیں نماز کو ضائع کرنے کے ضمن میں آتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا کہ اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کر دینا ہے۔ (تفسیر طبری) غیّا کا مفہوم: اللہ سے تعلق ختم ہو جانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا پیروکار اور غلام بن جاتا ہے۔ اور یہی کچھ شیطان چاہتا ہے اور ایسے شخص کے لیے گمراہی کی راہیں کھلتی جاتی ہیں۔ اور بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ عنقریب یہ لوگ ’’غیّی‘‘ میں ڈالے جائیں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ غی دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے جن میں دوزخیوں کا لہو اور پیپ بہے گا اور اس میں زانی،شراب خور، سود خور، اور ماں باپ کو ستانے والے جائیں گے۔ گویا نمازیں ضائع کرنے والے بھی اسی وادی میں ڈالے جائیں گے۔ (مستدرک حاکم: ۲/۳۷۴)