إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا
جب اس نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو سمجھایا کہ شیطان اللہ کا نافرمان ہے مخالف ہے۔ تکبر کرنے والا ہے اسی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا۔ اگر تم نے بھی اس کی اطاعت کی تو وہ اپنی جیسی حالت پر پہنچا دے گا۔ اس کے شرک و عصیان کی وجہ سے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آجائے اور آپ شیطان کے دوست اور اس کے ساتھی نہ بن جائیں۔ اور اللہ کی مدد اور اس کا ساتھ آپ سے نہ چھوٹ جائے۔ دیکھو شیطان خود بے بس و بے کس ہے۔ اس کی تابعداری آپ کو بُری جگہ پہنچا دے گی: ﴿تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾ (النحل: ۶۳) یعنی یہ یقینی اور قسمیہ بات ہے کہ تجھ سے پہلے کی اُمتوں کی طرف بھی ہم نے رسول بھیجے۔ لیکن شیطان نے ان کی بد اعمالیاں انھیں مزین کرکے دکھلائیں اور وہی ان کا ساتھی بن گیا۔ لیکن کچھ کام نہ آیا اور قیامت کے دن عذاب الیم میں پھنس گئے۔