سورة البقرة - آیت 222

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، پھر جب وہ غسل کرلیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہاجاتا ہے۔ حیض کی مدت ہر عورت اور اس کے جسم کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے جو عموماً کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ اور اپنی اپنی عادت کا ہر عورت کو علم ہوتا ہے۔ الگ رہو اور قریب نہ جا ؤ: ان دنوں میں مجامعت منع ہے یہود و نصاریٰ ان معاملات میں افراط و تفریط کا شکار تھے یہود ایسی عورتوں کو الگ مکان میں رکھتے اور ان کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اور نصاریٰ دوران حیض مجامعت سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں صرف جماع سے روکا گیا ہے البتہ میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں بوسہ لے سکتے ہیں گلے لگ سکتے ہیں۔ عورت کو دوران حیض کی پابندیاں: (۱) نماز نہیں پڑھ سکتی نماز معاف ہے اور اس کی قضا نہیں ہے۔ (۲)روزے نہیں رکھ سکتی لیکن روزے معاف نہیں بعد میں ان کی قضا دینا واجب ہے۔ (۳) طواف کعبہ کے علاوہ باقی سب ارکان بجا لاسکتی ہے۔ (۴) وہ کعبہ میں یا کسی بھی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی۔(۵) وہ قرآن کو چھو نہیں سکتی البتہ زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے۔ (۶)استحاضہ حیض سے بالکل الگ چیز ہے۔ یہ بیماری ہے۔ لہٰذا اس میں وہ تمام پابندیاں اٹھ جاتی ہیں حتیٰ کہ صحبت بھی کی جاسکتی ہے۔ جہاں سے اجازت سے مراد: یعنی شرمگاہ کیونکہ حالت حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا ہے اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جارہی ہے تو اس کا مطلب (فرج یعنی شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ عورت کی دُبر کا استعمال حرام ہے۔ توبہ اور پاکیزہ رہنا: اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ حیض والی عورت جائے نماز اٹھا سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘ (مسلم: ۲۹۸) ایك اور حدیث میں ارشاد ہے: ’’جس نے حائضہ سے ہم بستری کی یا قوم لوط کا فعل کیا تو اس نے اُس شریعت کا انکار کیا جو اللہ نے بتائی ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ: ۶۳۹)