يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔ اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے، یہاں تک کہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں، اگر کرسکیں، اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
رجب، ذی قعدہ، ذوالحجہ، اور محرم یہ چار مہینے زمانۂ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے۔ جن میں جنگ و جدال نا پسند تھا۔ اسلام نے بھی ان مہینوں کی حرمت کو برقرار رکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں ایک کافر قتل ہوگیا اور بعض کافر قیدی بنالیے گئے ۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہوگیاہے مسلمانوں کے خیال کے مطابق تو ۳۰جمادی الثانی تھا مگر حقیقتاً وہ یکم رجب ۲ہجری تھا۔ کفار مکہ نے اور دوسرے اسلام دشمن لوگوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا۔ کہ یہ لوگ بڑے اللہ والے بنتے ہیں مگر حرمت والے مہینے کی حرمت کا خیال بھی نہیں رکھتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقینا حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے۔ مگر جو کام تم کرتے رہے ہو اور کررہے ہو وہ تمہیں نظر نہیں آئے تم اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے روکتے ہو۔ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب جرائم ماہ حرام میں لڑائی کرنے سے زیادہ بڑے جرائم ہیں اس کے علاوہ کفر و شرک تو قتل سے بھی بڑا گناہ ہے مسلمانوں سے اگر غلطی سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہوگیا تو تم نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ اس پروا ویلا کرنے کی بجائے اپنے نامہ سیاہ کو بھی تو دیکھ لینا چاہیے۔ كفار مسلمانوں كو دین سے مرتد کردینا چاہتے ہیں: ان کے نزدیک تمہارا اصل جرم یہ نہیں کہ تم نے ماہ حرم میں لڑائی کی بلکہ اصل جرم یہ ہے کہ تم مسلمان کیوں ہوئے اور اب تک کیوں اس پر قائم ہو اور اس وقت تک مجرم ہی رہو گے جب تک یہ دین چھوڑ نہ دو گے۔ حقیقتاً وہ یہی چاہتے ہیں اور تمہارے بدترین دشمن ہیں لہٰذا ان سے ہوشیار رہو۔ جو مرتد ہوجائے: یعنی جو دین اسلام سے پھر جائے پھر اگر توبہ نہ کرے تو اس کی دنیوی سزا قتل ہے۔ اخروی سزا: اس آیت میں مرتد ہونے والے کی اخروی سزا بیان کی جارہی ہے جس طرح اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح اسلام سے پھر جانے سے پہلے سے کی ہوئی نیکیاں بھی برباد ہوجاتی ہیں۔ اور پھر گناہ ہی رہ جائیں گے جس کا خمیازہ دائمی عذاب جہنم کی صورت میں بھگتنا ہوگا، تاہم قرآن کے الفا ظ سے واضح ہے۔ کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگا جب خاتمہ کفر پر ہوگا اگر موت سے پہلے توبہ کرلے تو ایسا نہیں ہوگا یعنی مرتد کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔