قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا
کہا کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ یقیناً تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا۔
بستی والوں کی بے مروتی کے باوجود خضر نے کیوں ان پر احسان کیا؟ حضرت خضر اور موسیٰ علیہ السلام نے بستی والوں سے کھانا مانگا لیکن انھوں نے مہمان داری سے صاف انکار کر دیا۔ وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی حضرت خضر نے اُسی وقت ہاتھ لگا کر اُسے ٹھیک اور درست کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: دیکھیں ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا۔ انھوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا۔ ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر نے فرمایا: یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی۔ اب تمھیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا۔ جدائی سے قبل حضرت خضر نے تینوں واقعات کی حقیقت سے انھیں آگاہ اور باخبر کرنا ضروری خیال کیا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور وہ یہ جان لیں کہ علم نبوت اور ہے جس سے انھیں نوازا گیا ہے۔ اور بعض تکوینی امور کا علم اور ہے جو اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت حضرت خضر کو دیا گیا ہے۔ ان واقعات میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کارخانہ مشیت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ اس دنیا میں جو کچھ شب و روز ہو رہا ہے۔ وہ کیسے اور کن مصلحتوں کے تحت ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کی ظاہری شکل و صورت اصل حقیقت سے مختلف ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک عام انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ ظالموں اور نافرمانوں پر اللہ کے انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں پر سختیوں اور شدائد کا ہجوم ہے۔ ظالم مسلسل ظلم کرتے جا رہے ہیں اور ان کی سزا بے گناہوں کو ملتی ہے۔ تو ایسے واقعات سے انسان کو اکثر یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے۔ اگر اللہ موجود ہوتا تو ایسے جگر پاش واقعات دنیا میں کیوں وقوع پذیر ہوتے؟ ان واقعات میں ایسے ہی حالات سے پردہ اُٹھایا گیا ہے رہا اللہ کے عدل و انصاف کا معاملہ تو اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ تاہم عدل و انصاف کا صحیح اور مقررہ وقت روز آخرت ہے اور روز آخرت کا قیام اسی لیے ضروری ہے۔