فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا
سو دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے اسے پھاڑ دیا۔ کہا کیا تو نے اسے اس لیے پھاڑ دیا ہے کہ اس کے سواروں کو غرق کر دے، بلاشبہ یقیناً تو ایک بہت بڑے کام کو آیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پہلا اعتراض: خضر نے کشتی کا تختہ کیوں توڑا؟ کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر ان دونوں سے کرایہ بھی نہ لیا اور کشتی میں سوار کر لیا، مگر جب یہ کشتی منزل مقصود کے قریب پہنچی تو سیدنا خضر نے کشتی کے ایک پہلو سے ایک تختہ توڑ دیا، یہ شگاف نیچے پیندے میں نہ ڈالا گیا تھا، اس لیے کشتی جو پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچنے والی تھی ڈوبنے سے تو بچ گئی مگر ڈوبنے کا خطرہ ضرور تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض صرف اس بنیاد پر نہ تھا کہ کشتی والے ڈوب جائیں گے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کشتی والوں نے تو احسان کیا کہ کرایہ بھی نہ لیا اور اس احسان کا بدلہ یوں دے رہے ہیں کہ کشتی کو ہی عیب دار کر دیا۔ اسی وقت حضرت خضر نے فرمایا دیکھو میں نے تمھیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کی کہ خطا ہو گئی معاف کر دیجیے، سختی نہ کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ واقعی یہ پہلی غلطی تھی، اب کشتی کنارے لگی اور دونوں ساحل پر اتر کر چلنے لگے۔ دوسرا اعتراض: حضرت خضر نے نوجوان کو کیوں مارا؟ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کی گردن کو مروڑا حتیٰ کہ اس کی جان نکل گئی۔ موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور کہنے لگے بغیر کسی جرم کے آپ نے اس بچے کو نا حق مار ڈالا۔ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا۔ حضرت خضر نے کہا: دیکھو میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تمھاری ہماری نبھ نہیں سکتی۔ اس مرتبہ حضرت خضر نے کچھ زیادہ سختی کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔ چنانچہ پھر دونوں ہمراہ چلے اور ایک بستی کے پاس پہنچے۔