أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا
یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشگی کے باغات ہیں، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں انھیں کچھ کنگن سونے کے پہنائے جائیں گے اور وہ باریک اور گاڑھے ریشم کے سبز کپڑے پہنیں گے، ان میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے۔ اچھا بدلہ ہے اور اچھی آرام گاہ ہے۔
سونے کے کنگن اور ریشمی لباس: قرآن کے انداز بیان کے مطابق جہنمیوں کے ذکر کے بعد اب اہل جنت کا تذکرہ ہے۔ تاکہ لوگوں کے اندر جنت حاصل کرنے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔ زمانہ نزول قرآن اور اس سے ما قبل رواج تھا کہ بادشاہ رؤسا اور سرداران قبائل اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنتے تھے جس سے ان کی امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی تھی۔ اہل جنت کو بھی جنت میں کڑے پہنچائے جائیں گے۔ (باریک ریشم اور موٹا ریشم) دنیا میں مردوں کے لیے سونا اور ریشمی لباس ممنوع ہیں۔ جو لوگ اس پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں ان محرمات سے اجتناب کریں گے، انھیں جنت میں یہ ساری چیزیں میسر ہوں گی۔ یہ با آرام شاہانہ انداز سے مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ وہاں کوئی چیز ممنوع نہیں ہوگی بلکہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے وہ موجود ہوگی۔ (وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ) جس چیز کو تمھارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب جنت میں موجود ہے۔ کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کتنی ہی اچھی اورآرام دہ جگہ ہے۔ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا۔ (بخاری: ۵۳۹۸، ترمذی: ۱۸۳۰)