سورة الكهف - آیت 28

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ تو دنیا کی زندگی کی زینت چاہتا ہو اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

غریب و مخلص مومنوں سے وابستہ رہنے کی ہدایت: یعنی یہ صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والے اور اللہ کی رضا چاہنے والے لوگ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بیٹھے رہا کرو، خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر، خواہ رذیل ہوں خواہ شریف، خواہ قوی ہوں، خواہ ضعیف۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ (مسلم: ۴۶/ ۲۴۱۳) یعنی یہی لوگ قیمتی سرمایہ ہیں، قریشی سرداروں کے مطالبہ کو اور ان کے ٹھاٹھ باٹھ مت دیکھیے کیونکہ ان کے اس مطالبہ سے ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ایمان لانے میں کس حد تک مخلص ہیں۔ جو شخص آخرت کی جوابدہی پر ایمان ہی نہیں رکھتا، وہ تو جدھر اور جس طرح بھی اپنا ذاتی مفاد دیکھے گا فوراً ادھر جھک جائے گا۔ اس کا کوئی کام حد اعتدال تک محدود نہ رہے گا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی بات ہرگز نہ مانیے۔