وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَٰهًا ۖ لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا
اور ہم نے ان کے دلوں پر بند باندھ دیا، جب وہ کھڑے ہوئے تو انھوں نے کہا ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے، بلاشبہ یقیناً ہم نے اس وقت حد سے گزری ہوئی بات کہی۔
مزید راہنمائی سے مراد اپنے ایمان پر ڈٹ جانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے انھیں اپنی زبان سے کفر و شرک کا کلمہ کہنا اس قدر دشوار تھا کہ ایسی بات کہنے پر اپنا گھر بار چھوڑ دینے کو ترجیع دی اور سوسائٹی کی نظروں سے روپوش ہوگئے دلوں کو مضبوط کر دیا یعنی ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے خویش و اقارب کی جدائی اور عیش و راحت کی زندگی سے محرومی کا جو صدمہ انھیں اٹھانا پڑا، ہم نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا تاکہ وہ ان شدائد کو برداشت کرلیں، نیز حق گوئی کا فریضہ بھی جرأت اور حوصلے سے ادا کر سکیں۔ بعض مفسرین نے نزدیک بادشاہ کے سامنے کھڑا ہو کر انھوں نے توحید کو بیان کیا تھا، بعض کہتے ہیں کہ شہر کے باہر آپس میں ہی کھڑے، ایک دوسرے کو توحید کی وہ بات سنائی جو فرداً فرداً اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید اکھٹے ہو گئے اور یہ سب توحید پرست آپس میں سچے دوست او رماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن گئے۔