فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔
مشرکین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور بھاگتے تھے، ایمان نہ لاتے تھے، جتنی شدید خواہش آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان لانے کی رکھتے تھے، اور ان کے اعراض و گریز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سخت تکلیف ہوتی تھی اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی کیفیت اورجذبے کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کی ہدایت کی فکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو ہلکان کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ خود اپنے دین کا محافظ ہے۔ آپ بس اپنا تبلیغ رسالت کا کام کرتے جائیے، کسی کو ہدایت دینا اللہ کا کام ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے، گمراہ اپنا بُرا کریں گے۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے۔