قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
انسانی فطرت کا نفسیاتی جائزہ: خشیۃ الانفاق سے مراد: اس بات کا ڈر کہ خرچ کرکے ختم کر ڈالیں گے اس کے بعد فقیر ہو جائیں گے، حالانکہ رحمت الٰہی، خزانہ الٰہی ہے جو ختم ہونے والا نہیں۔ لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے اس لیے بُخل سے کام لیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿اَمْ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا﴾ (النساء: ۵۳) ’’اگر ان کو اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں یعنی تِل برابر بھی کسی کو نہ دیں۔‘‘ یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں ایک حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں، کس قدر خرچ کیا ہوگا، لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں (وہ بھرے کے بھرے) ہیں۔ (بخاری: ۴۶۸۴)