أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا
اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بے شک وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس پر قادر ہے کہ ان جیسے پیدا کر دے اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہے، جس میں کچھ شک نہیں، پھر (بھی) ظالموں نے کفر کے سوا (ہر چیز سے) انکار کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے وہ ان جیسی چیزوں کی پیدائش یا دوبارہ انھیں زندگی دینے پر قادر ہے۔ کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ﴾ (المومن: ۵۷) ’’آسمان اور زمین کی پیدایش، انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا ا ور مشکل کام ہے۔‘‘ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ الاحقاف ۳۳ میں، سورہ یٰسٓ ۸۱، ۸۲ میں بھی بیان فرمایا ہے۔ دوبارہ زندگی کے لیے وقت مقررہے۔ اور ہر کام اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوتا ہے۔ مثلاً گندم کا بیج آپ زمین میں پھینک دیں مگر وہ اُگے گا اُسی وقت جب اس کے اُگنے کا موسم آئے گا۔ اسی طرح انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا وقت (نفخہ یعنی) صور ثانی ہے۔ جب وہ صور پھونکا جائے گا تو تم سب ایک طبعی عمل کے تحت زمین سے نکل آؤ گے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ مَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ﴾ (ہود: ۱۰۴) ’’ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقررہ تک کے لیے ہی موخر کر رہے ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ افسوس کس قدر واضح دلائل کے بعد بھی لوگ کفر و ضلالت کو نہیں چھوڑتے۔