وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا
اور جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جنھیں گمراہ کر دے تو تو ان کے لیے اس کے سوا ہرگز کوئی مدد کرنے والے نہیں پائے گا اور قیامت کے دن ہم انھیں ان کے چہروں کے بل اندھے اور گونگے اور بہرے اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی بجھنے لگے گی ہم ان پر بھڑکانا زیادہ کردیں گے۔
میدان حشر کا خوفناک منظر: انسان کے اعمال کی جزا و سزا کا فیصلہ قیامت کے دن ہو جائے گا۔ مثلا جن لوگوں نے اس دنیا میں سیدھی راہ کی بجائے غلط راستے اختیار کیے اور راست روی کی بجائے اُلٹی چال چلتے رہے انھیں وہاں بھی اُلٹی چال چلایا جائے گا۔ اس دنیا میں وہ پاؤں کے بل چلتے تھے قیامت کے دن انھیں چہروں کے بَل چلا کر پیش کیا جائے گا۔ ایک حدیث میں وارد ہے: ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کیسے ہوگا؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اگر پاؤں کے بل چلا سکتا ہے۔ تو وہ چہروں کے بل چلانے پر بھی قادر ہے۔‘‘ (بخاری: ۴۷۶۰) اسی طرح جن لوگوں نے اس دنیا میں سیدھی راہ کی بجائے غلط راستے اختیار کیے اور راست روی کی بجائے اُلٹی چال چلتے رہے انھیں وہاں بھی اُلٹی چال چلایا جائے گا۔ اس دنیا میں وہ پاؤں کے بل چلتے تھے۔ قیامت کے دن انھیں چہروں کے بل چلا کر پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح جن لوگوں نے اس دنیا میں حق بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا ہوگا وہ وہاں فی الواقع بہرے بنا دیے جائیں گے اور جن لوگوں نے زبان سے حق بات کہنے یا اس کی شہادت دینے سے انکار کیا تھا وہ اس کی سزا میں گونگے بنا دیے جائیں گے اور جن لوگوں نے کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کر زحمت ہی گوارا نہ کی تھی وہاں انھیں اس جرم کی پاداش میں اندھا کر دیا جائے گا، پھر اس حال میں انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور انھیں ایسا مسلسل اور دائمی عذاب ہوگا جس میں نہ کوئی کمی واقع ہوگی اور نہ کوئی وقفہ پڑے گا۔