وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا
اور انھوں نے کہا ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے۔
وہ سبھی معجزے جن کا قریش مکہ مطالبہ کیا کرتے تھے۔ ان آیات میں ان کا تذکرہ ہے جو وہ وقتاً فوقتاً نبوت کی دلیل پر حسی معجزہ کی صورت میں مطالبہ کرتے رہے تھے حالانکہ وہ ایسے کئی معجزات دیکھ چکے تھے جو آپ کی نبوت پر واضح دلیل تھے مثلاً بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ قرآن جیسا کلام پیش نہ کر سکے تھے۔ چاند پھٹنے کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ واقعہ اسراء کے سلسلہ میں بیت المقدس پر وہ سوال و جواب کر چکے تھے۔ اس کے باوجود یہ ایمان نہیں لائے ان کی ہٹ دھرمی کہ اتنے معجزات دیکھنے کے بعد مزید مطالبے کر رہے ہیں کہ آپ یہاں پانی کے چشمے بہا دیں تاکہ ہماری پانی کی قلت دور ہو۔ نیز یہاں سے پہاڑوں کو ہٹا دیں کہ ہمیں رہنے کو کچھ میدان میسر آئے اور اس میں کھیتی باڑی، کھجوروں کے اور انگوروں کے باغ پیدا ہوں۔ یا جیسے ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔ یا جس فرشتے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ مجھ پر نازل ہوتا ہے کم از کم ہم اُسے ہی دیکھ لیں۔ یا اگر تم ہمارا بھلا نہ کر سکو تو تمھارا اپنا گھر سونے کا بن جائے۔ یا تم ہمارے سامنے آسمان پر چڑھو اور جب اترو تو تمھارے ہاتھ میں ایک کتاب ہونا چاہیے جس میں ہمیں خطاب کیا گیا ہو کہ یہ ’’واقعی نبی ہے اور اس پر ایمان لے آؤ تو تب ہی ہم تمھاری نبوت پر ایمان لاسکتے ہیں۔ مطالبات کا جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہیے کہ میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ میں خدائی اختیارات کا مالک اور قادرِ مطلق ہوں۔ میرے رب کے پاس تو ہر طرح کی طاقت ہے۔ وہ تمھارے مطالبات آن واحد میں لفظ ’’کن‘‘ سے پورے فرما دے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو تمھاری طرح ہی ایک بشر ہو ہاں اس کے ساتھ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ لیکن رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچاناہے۔ سو وہ میں نے تمھیں پہنچا دیا اور پہنچا رہا ہوں۔ لوگوں کے مطالبات پر معجزات ظاہر کرکے دکھانا یہ رسالت کا حصہ نہیں ہے۔ معجزات کا صدور صرف اللہ کی مشیت سے ہی ممکن ہے۔ اور اس کی مشیت میں دخل اندازی کا میں مجاز نہیں۔