وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا
اور یقیناً اگر ہم چاہیں تو ضرور ہی وہ وحی (واپس) لے جائیں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے، پھر تو اپنے لیے اس کے متعلق ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں پائے گا۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی پر انعام کیا ہے، یعنی آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت بھی باطل کی آمیزش ناممکن ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب کر سکتا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی یہ شام کی طرف سے اُٹھے گی اس وقت قرآن کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا اور اس کا ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ (تفسیر طبری) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک بزرگی یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے میں عاجز ہے کسی کے بس میں نہیں کہ اس جیسا کلام بنا کر لے آئے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ بے مثل، بے نظیر، لا شریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے، نظیر سے پاک ہے۔ اور اس وحی الٰہی کی ہی برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جا رہی ہے۔ اور اس وحی کے ذریعے سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کرام کو صبر وثبات میسر آ رہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ ہی ہے وہ منقطع ہو سکتی ہے۔ اور اس صورت آپ کو سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہوگی یہ تو آپ پر اللہ کی مہربانی ہے کہ آپ پر وحی حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے، جس سے اسلام کی سربلندی کے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے اس کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر واضح کر دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق سے دو ربھاگ رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں۔