أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
نماز قائم کر سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کا قرآن (پڑھ)۔ بے شک فجر کا قرآن ہمیشہ سے حاضر ہونے کا وقت رہا ہے۔
پانچ نمازوں کا ذکر: معراج کی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں اس آیت میں ان نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے۔ یعنی چار نمازیں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء تو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک ہوئیں اور پانچویں نماز کا وقت فجر طلوع ہونے سے لے کر آفتاب کے طلوع ہونے تک ہے۔ اس سے پہلی آیت میں کفار کی ایذا رسانیوں اور ان سے متعلق اللہ کے دستور کا ذکر تھا۔ یہاں نمازوں کا ذکر اس وجہ سے لایا گیا کہ مشکلات و مصائب کے وقت صبر اور نماز سے ہی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ پس پانچ نمازوں کے اوقات کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ نمازوں کے اوقات کی تعیین میں مصلحت: مشرکوں اور بت پرستوں کی اکثریت سورج کو ایک بڑا طاقتور دیوتا تسلیم کرتی رہی ہے بالخصوص یہ لوگ تین اوقات میں اس کی پرستش کرتے تھے سورج چڑھنے کے وقت، سر پر آنے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت، لہٰذا ن اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی ادائیگی سے منع فرمایا۔ تاکہ ان سورج پرستوں سے عبادت کے اوقات میں مشابہت نہ ہونے پائے۔ قرآن الفجر سے مراد: فجر کی نماز ہے یہاں لفظ قرآن نماز کے معنی میں ہے کہ اس کو قرآن سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے۔ اور مشہود سے مراد یہ ہے کہ اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز با جماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گناہ فضیلت رکھتی ہے اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث پڑھنے کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ (بخاری: ۴۷۱۷) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے ۔ حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے۔ ’’تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟‘‘ فرشتے کہتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انھیں نماز پڑھتے ہی چھوڑکر آئے ہیں۔ (بخاری: ۵۵۵) نمازتہجد: تہجد کا لغوی معنی تو صرف رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے کسی حصہ میں بیدار ہونا ہے۔ جبکہ اصطلاح میں رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصے میں نصف شب کے بعد بیدار ہو کر ادا کی جانے والی نماز کو تہجد کہتے ہیں۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اُٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے متعلق سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو، دو رکعت کرکے پڑھو، پھر جب کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری رات نماز کو طاق بنا دے گی۔ (بخاری: ۵۹۲) بعض نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی جس طرح پانچ نمازیں فرض ہیں البتہ اُمت کے لیے تہجد کی نماز فرض نہیں، بعض کہتے ہیں کہ تہجد کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع درجات کے لیے زائد چیز ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مغفور الذنب ہیں جب کہ اُمتیوں کے لیے نمازِ تہجد اور دیگر اعمال خیر کفارہ سیئات ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ نافلہ ہی ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے۔ اور اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔