وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا
اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھے ثابت قدم رکھا تو بلاشبہ یقیناً تو قریب تھا کہ کچھ تھوڑا سا ان کی طرف مائل ہوجاتا۔
کفار مکہ کی آپ سے سمجھوتہ کی کوشش: کفار مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھوتہ کے لیے مختلف ترغیبات پیش کیں۔ (۱)اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلق آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ (۲) ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ (۳) اگرمال و دولت چاہتے ہیں تو آپ کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ (۴) اگر کسی عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس سے شادی کروا دیتے ہیں بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں۔ یہ پیش کش آپ کے چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آپ کو سمجھانے لگے یہ معاملہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا جان اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہوکر رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہوگی۔ بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کہنے لگے بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ جب تک میں زندہ ہوں تمھاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا۔ ان آیات اور ایسے ہی واقعات کی طرف اشارہ کرکے بتایا گیا ہے کہ تمھیں جو استقلال کی توفیق ہوئی تو ’’اللہ کی طرف سے نصیب ہوئی اگر یہ توفیق نصیب نہ ہوتی تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف جھک بھی سکتے تھے اگر ایسی صورت پیش آجاتی تو کفار مکہ تو تم سے ضرورخوش ہو جاتے اور تمھیں اپنا دوست بھی بنا لیتے مگر اللہ کی طرف سے آپ کو نبی ہونے کی بنا پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں دوہرا عذاب پہنچ سکتا تھا۔ اپنے نبی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق اور مہربانی سے حق و باطل کی اس آمیزش سے بچا لیا۔ اب یہ تمام ترعتاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو محض چند ٹکوں کی خاطر باطل سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔