قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا
فرمایا جا، پھر ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا تو بے شک جہنم تمھاری جزا ہے، پوری جزا۔
شیطانی آواز کا بہکاوا: ابلیس نے اللہ سے مہلت مانگی اللہ تعالیٰ نے مہلت دے دی اور ارشاد فرمایا: ’’وقت معلوم‘‘ تک تجھے مہلت ہے۔ تیری اور تیرے تابعداروں کی برائیوں کا بدلہ جہنم ہے۔ جو پوری سزا ہے۔ اپنی آواز سے تو جسے چاہے بہکا لے، شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی پر اُکساتی ہو یعنی گانا بجانا، موسیقی، لڑائی جھگڑا، راگ رنگ، طرب و نشاط کی محفلیں سب کچھ اس حکم میں شامل ہے جو اللہ کی یاد سے انسان کو غافل بنائے رکھتی ہیں۔ شیطان کے لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں یا ہر ممکن ذرائع جن سے شیطان انسان کو گمراہ کر سکتا ہے۔ مال اور اولاد میں شرکت سے مراد: حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے۔ اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کر دینا مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ بنانا اور اولاد میں شرکت کا مطلب زنا کاری، عبدالات، عبدالعزیٰ، عبدالنبی اور پیراں دتہ وغیرہ نام رکھنا، غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا، ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کر دینا، اولاد کو مجوسی، یہودی اور نصرانی وغیرہ بنانا، اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا کہ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہو جاتی ہے۔ صحیحین میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’تم میں سے جو اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے وہ یہ دعا پڑھ لے۔ (اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْنَا) یعنی یا اللہ تو ہمیں شیطان سے بچا اور اسے بھی جو تو ہمیں عطا فرمائے تو اگر اس سے کوئی بچہ اللہ کی طرف ٹھہر جائے گا تو اسے ہرگز ہرگز کبھی بھی شیطان کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری: ۱۴۱۔ مسلم: ۱۴۳۴) شیطان کے وعدے: روز آخرت کا تصور محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے۔ کوئی جنت اور دوزخ نہیں ہے۔ شیطان کے وعدے جھوٹے اور دھوکا ہیں۔ قیامت کے دن یہ خود کہے گا کہ اللہ کے وعدے تو سب سچے تھے جبکہ میرے وعدے سب جھوٹے تھے۔