قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا
کہہ پکارو ان کو جنھیں تم نے اس کے سو اگمان کر رکھا ہے، پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ بدلنے کے۔
اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے کہیے کہ تم انھیں خوب پکار کر دیکھ لو آیا وہ تمھارے کچھ کام بھی آسکتے ہیں۔ مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے یا حضرت عزیر اورمسیح علیہ السلام ہیں جنھیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے تھے اور انھیں الوہی صفات کا حامل مانتے تھے یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے اس لیے اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی اُمید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں یہ صفت پتھروں میں نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین کچھ انبیا اور کچھ جنات بھی تھے اللہ تعالیٰ نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، نہ کسی سے تکلیف دور کر سکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں بلکہ خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اعمال صالحہ کے ذریعے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں، یہی ’’الوسیلہ‘‘ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے۔ وہ نہیں جسے قبرپرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ، میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے حاجات طلب کرو۔ یہ وسیلہ نہیں بلکہ ان کی عبادت ہے جو شرک ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: ’’جن جنات کی یہ مشرکین پرستش کرتے تھے وہ خود مسلمان ہو گئے تھے۔‘‘ (بخاری: ۴۷۱۴) لیکن یہ اب تک اپنے کفر پر جمے ہوئے ہیں۔ اس لیے انھیں خبردار کیا گیا کہ تمھارے معبود خود اللہ کی طرف جھک گئے ہیں۔ لہٰذا اس کے فرمانبردار بن کر عمل صالحہ بجا لا کر ان اعمال کے ذریعہ یا وسیلہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہیے اور اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ شاید ان اعمال میں کوئی تقصیر نہ ہوگئی ہو۔