وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا
اور ہم نے ان کے دلوں پر کئی پردے بنا دیے ہیں، (اس سے) کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ۔ اور جب تو قرآن میں اپنے رب کا، اکیلے اسی کا ذکر کرتا ہے تو وہ بدکتے ہوئے اپنی پیٹھوں پر پھر جاتے ہیں۔
مشرکوں کی توحید سے نفرت کی ایک نشانی: کیونکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ان کے معبودوں کی از خود نفی ہو جاتی ہے، جسے وہ اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی بھی توہین سمجھتے ہیں، لہٰذا اکیلے اللہ کا ذکر سنتے تو غصہ اور نفرت کی بنا پر وہاں سے بھاگ اُٹھتے ’’ اَکِنَّۃً‘‘ یہ کنان کی جمع ہے۔ ایسا پردہ جو دلوں پر پڑجائے کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو مطلب یہ کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر ہیں اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں اور اللہ کی توحید سے انھیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ آج کے خطبات اور تقریریں سنیں تو ان کا اکثر حصہ ان کے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کرامات و تصرفات کا ذکر آئے گا۔ ابتدا میں رسمی طور پر کوئی آیت ضرور پڑھ لی جاتی ہے لیکن بعد کی تقریر میں بس ان بزرگوں کی مدح و ثنا اور کرامات وغیرہ بیان کی جاتی ہیں۔ ان کے پیروکار پسند بھی ایسی ہی تقریر کو کرتے ہیں۔ لیکن اگر صرف توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو تو اس کئی بار سنی ہوئی تقریر سے ان کی طبیعت بور ہو جاتی ہے اور خطبہ جمعہ کے علاوہ کسی جلسہ وغیرہ میں تقریر ہو رہی ہو تو اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔