وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا
اور اس جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص قتل کردیا جائے، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقیناً ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقیناً وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔
ناحق قتل: بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جو شخص اللہ کے واحدہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں (ا) یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو۔ (۲)شادی شدہ ہو اور زناکیا ہو (۳) دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو۔ (بخاری: ۶۸۷۸، مسلم: ۱۶۷۶) اور ایک روایت میں ہے: ’’ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کے قتل سے زیادہ آسان ہے۔‘‘ (ترمذی: ۱۳۹۵) ولی کا حق: یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کر دیں اور اس سے دیت (معاوضہ) لے لیں یا معاف کر دیں۔ اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو، تین یا چار کومار دیں۔ یا اس کا مثلہ (ٹکڑے ٹکڑے) کرکے عذاب دے دے کر ماریں مقتول کے وارث کی حمایت حکومت اور افراد معاشرہ سب کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادہ کا ارتکاب کرکے اللہ کی ناشکری کرے۔