وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔
خرچ کرنے میں اعتدال: پچھلی آیت میں انکار کرنے کا ادب بیان فرمایا اب خرچ کرنے کا ادب بیان فرمایا اپنا ہاتھ گردن سے باندھنا محاورہ ہے جس کے معنی ہے بُخل کرنا یعنی خرچ کرتے وقت نہ بخل سے کام لیا جائے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کر دینا چاہیے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے۔ صحیحین میں مروی ہے کہ حضور علیہ السلام فرماتے کہ دوسرا فرشتہ یہ دعا کرتا ہے کہ بخیل کا مال تلف کر۔ (بخاری: ۱۴۴۲۔ مسلم: ۱۰۱۰) خرچ خواہ اپنی ضرورت کے لیے ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں، میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوا۔ (مسند احمد: ۱/ ۴۴۷) سورۂ بقرہ۲۱۹ میں ہے کہ وہ سب کچھ خرچ کر دیجیے جو ضرورت سے زیادہ ہو، یعنی انفاق فی سبیل اللہ کی سب سے اونچی حدیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ صدقہ جس کے بعد آدمی خود محتاج یا صدقہ لینے کے قابل نہ ہو جائے۔ (بخاری: ۲۷۸۴)