وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظالم تھے۔
بھوک اور خوف کے عذاب کے باوجود انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ مانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کمر کس لی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قحط سالی کی بددعا کی جیسی حضرت یوسف علیہ السلام کے دورمیں تھی۔ یہ ان کی بد اعمالیوں کا ثمرہ تھا کیونکہ یہ ظلم و زیادتی پر اڑے ہوئے تھے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے رہتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہی بھیجا تھا اس آیت میں مسلمانوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ کفران نعمت اتنا بڑا جرم ہے اور سب سے بڑی نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تھی۔ لہٰذا اگر تم ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کرو۔ اسی کی بندگی کرو، اس کی نافرمانی سے بچو۔