سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا، تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فریب کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے بڑھی ہوئی ہو، اللہ تو تمھیں اس کے ساتھ صرف آزماتا ہے اور یقیناًقیامت کے دن وہ تمھارے لیے ضرور واضح کرے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عہدوپیمان کی حفاظت: جوعہدوپیمان کی حفاظت نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کے فعل سے علیم و خبیر ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتورتھا، سوت کاتنے کے اور ٹھیک ٹھاک مضبوط ہوجانے کے بعد اسے بے وجہ توڑتاڑکرپھرٹکڑے ٹکڑے کردیتی۔ (تفسیرابن کثیر، طبری) عورت کی مثال دیتے ہوئے فرمایاکہ تم بھی اپنے معاہدات کوکچے دھاگے کی طرح نہ سمجھوکہ جب چاہااپنامعاہدہ توڑ دیا، ابوداؤد میں روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لیے صلح نامہ ہوگیاتھااس مدت کے خاتمے کے قریب آپ نے مجاہدین کوسرحدروم کی طرف روانہ کیاکہ وہ سرحدپرپڑاؤڈال لیں اورمدت ختم ہوتے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کوتیاری کاموقع نہ ملے۔ جب عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کویہ خبرہوئی توآپ امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہنے لگے!اللہ اکبر۔اے معاویہ رضی اللہ عنہ عہدپوراکر۔غدراوربدعہدی سے بچ ۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناہے۔کہ جس قوم سے عہدمعاہدہ ہوجائے توجب تک مدت صلح ختم نہ ہوجائے،کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں یہ سنتے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکروں کوواپس بلالیا۔ (ابو داؤد: ۲۷۵۹) اَرْبٰی: کے معنی اکثرکے ہیں یعنی جب تم دیکھوکہ تم زیادہ ہوگئے ہوتواپنے زعم کثرت میں حلف توڑدو۔جب کہ قسم ومعاہدے کے وقت وہ گروہ کمزورتھا،لیکن کمزوری کے باوجودمطمئن تھاکہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایاجائے گا،لیکن تم غدراورنقص عہدکرکے نقصان پہنچاؤ۔زمانہ جاہلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہدشکنی عام تھی،مسلمانوں کواس اخلاقی پستی سے روکاگیاہے۔اوریہ بھی مطلب ہے کہ جب ایک قوم سے معاہدہ کرلیا پھردیکھاکہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے اس سے معاملہ کر لیااوراگلے معاہدے کوتوڑدیا۔یہ سب منع ہے۔اللہ تعالیٰ پابندی وعدہ کے حکم سے تمہاری آزمائش کرتاہے۔