إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اس آیت میں تین باتوں کاحکم دیاگیاہے۔(۱)عدل (۲)احسان(۳)قرابت داروں کی امداداورتین باتوں سے منع کیاگیاہے۔(۱)بے حیائی(۲)بُرے کام،(۳)سرکشی۔اوریہ چھ الفاظ اس قدروسیع المعنی ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات کاخلاصہ اس میں آگیا ہے۔ (۱) عدل: عدل سے مراد انصاف کرنا ہے، یعنی اپنوں،بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیاجائے کسی کے ساتھ دشمنی یاعناد،یامحبت یاقرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ عدل کے دوسرے معنی اعتدال کے ہیں۔اعتدال کاتقاضا ہے کہ ہرشخص کواس کے اخلاقی،معاشرتی قانونی،سیاسی وتمدنی حقوق پوری ایمانداری کے ساتھ اداکئے جائیں۔ (۲)احسان: ایک معنی حسن سلوک،عفوودرگزراورمعاف کردینے کے ہیں اوردوسرے معنی حق واجب سے زیادہ دینایاعمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔ مثلاً کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے۔لیکن مزدوری دیتے وقت دس بیس روپے زیادہ دینایہ احسان ہے۔ عدل سے معاشرے میں امن قائم ہوتاہے۔لیکن احسان سے مزیدخوشگواری،اپنائیت وفدائیت کے جذبات نشوونما پاتے ہیں۔ اورفرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کااہتمام عمل واجب سے زیادہ عمل ہے جس سے اللہ کاقرب خصوصی حاصل ہوتاہے۔احسان کے ایک دوسرے معنی اخلاص عمل اورحسن عبادت کے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں احسان کو اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا وہ تمہیں دیکھ رہاہے یا تم اسے دیکھ رہے ہو (بخاری: ۵۰) سے تعبیرکیاگیاہے۔ (۳)رشتہ داروں کاحق ادا کرنا، امداد کرنا ہے۔ عدل واحسان کاسلوک توقریبی رشتہ داروں سے بھی ہوگا تاہم ان کے حقوق عام لوگوں سے زیادہ ہیں۔ جس میں والدین اوردوسرے رشتہ داروں کے حقوق اوران سے بہترسلوک سب کچھ شامل ہے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ ہرخاندان کے خوشحال افرادکواس کاذمہ دارقراردیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افرادکوبھوکاننگاچھوڑیں،اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے برترکوئی حالت نہیں کہ اس کے اندرایک شخص توعیاشی کی زندگی بسرکررہاہو۔اوراسی خاندان میں اس کے اپنے بھائی بندروٹی کپڑے تک کومحتاج ہوں۔اسے حدیث میں صلۂ رحمی کہا گیا ہے۔اوراس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔عدل واحسان کے بعداس کاالگ سے ذکر،یہ بھی صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اوپرکی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین بُرائیوں سے روکتاہے،جوانفرادی حیثیت سے افرادکو،اوراجتماعی حیثیت سے معاشرے کوخراب کرنے والی ہیں۔ (۱)فحشا: سے مرادبے حیائی کے کام لیں آج کل بے حیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اسے تہذیب کانام،ترقی اورآرٹ کانام دے دیاگیاہے’’تفریح‘‘کے نام پر اس کاجوازتسلیم کرلیاگیاہے۔تاہم خوشنمالیبل لگالینے سے کسی چیزکی حقیقت نہیں بدل سکتی،اسی طرح شریعت اسلامیہ نے زنا، رقص وسرود بے پردگی اور فیشن پرستی کو،مردوزن کے بے باکانہ اختلاط اورمخلوط معاشرت اوردیگراس قسم کی خرافات کوبے حیائی ہی قراردیاہے۔ان کا جتنا بھی اچھانام رکھ لیا جائے، مغرب سے درآمدشدہ یہ خباثتیں جائز قرار نہیں پاسکتیں۔ (۲)منکر: ہروہ کام جسے شریعت نے ناجائزقراردیاہے۔اورجسے انسان بالعموم بُراجانتے ہیں۔ (۳) بغی: کا مطلب ہے ظلم وزیادتی کاارتکاب کرنا،دوسروں کے حقوق پردست درازی کرناخواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یامخلوق کے ابن ماجہ،کتاب الزہد میں روایت ہے ’’کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کواتنے ناپسندہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (آخرت کے علاوہ)دنیامیں بھی ان کی فوری سزاکاامکان غالب رہتاہے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۴۲۱۱)