يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
وہ تجھ سے نئے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں اور نیکی ہرگز یہ نہیں کہ گھروں میں ان کی پچھلی طرفوں سے آؤ، بلکہ نیکی اس کی ہے جو بچے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
شان نزول: لوگ چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے چاند کیسے گھٹتا بڑھتا ہے اور اس کی شکلیں کیوں بدلتی ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ چاند کا گھٹنا بڑھنا: اس کا انسان کی عملی زندگی اور ہدایت سے کوئی تعلق نہیں آپ کہہ دیں کہ یہ تمہارے لیے قدرتی جنتری ہے۔ جس سے تاریخوں اور حج کے اوقات معلوم کرسکتے ہو۔ عربوں کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی پر حج حاوی تھا۔ حج كے موسم میں کاروبار چمکتے تھے۔ حج پر ان سب کی معیشت کا دارومدار تھا۔ اللہ نے اس جگہ کے لیے عزت و احترام کا احساس پیدا کیا اور خدمت کے لیے بھی۔ نیکی کا مفہوم جاہلیت میں دستور تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اگر کسی کو گھر آنے کی ضرورت پیش آجاتی تو یہ لوگ گھر کے دروازے کے بجائے پچھواڑے سے یا پچھلی دیوار میں کسی کھڑکی سے گھر میں داخل ہوتے اور اسے نیکی کا کام سمجھتے تھے۔ چنانچہ سیدنا براء فرماتے ہیں یہ آیت ہم انصاری لوگوں کے لیے نازل ہوئی جب وہ حج کرکے واپس آتے تو دروازوں سے نہ آتے بلکہ پچھواڑے سے آتے۔ ایک دفعہ ایک انصاری دروازے سے اندر آیا تو سب اسے لعنت ملامت کرنے لگے تب یہ آیت اتری۔(الدرر المنثور: ۲/ ۳۰۷) نیکی یہ ہے کہ انسان اللہ سے ڈرے اپنی زندگی میں اللہ کی حدود کی پابندی کرے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی سمجھ کر کسی بات کو دین میں داخل کردینا مذموم اور ممنوع ہے اور بدعات بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ نیکی کے بارے میں آپ نے فرمایا: ’’ نیکی وہ جو دل میں ہو مطمئن ہو اور کوئی کھٹک نہ ہو۔‘‘ (مسلم: ۲۵۵۳) ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ آپ دعا کرتے اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، اور پارسائی کی دعاکرتا ہوں۔ (مسلم: ۲۷۲۱)