لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ
اپنی آنکھیں اس چیز کی طرف ہرگز نہ اٹھا جس کے ساتھ ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو فائدہ دیا ہے اور نہ ان پر غم کر اور اپنا بازو مومنوں کے لیے جھکادے۔
فضائل سورۃ فاتحہ: سات بار دہرائی جانے والی آیات سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :’’میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورۃ بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ) یہی سبع المثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔ ‘‘ (بخاری: ۴۷۰۳) نیز سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’سورہ الحمدہی اُم القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور سات دہرائی جانے والی آیتیں ہیں ۔‘‘(بخاری: ۴۷۰۴) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب ہم نے قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرمارکھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نظر نہ دوڑائیں جن کو دنیائے فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رکھیں یعنی ان کے لیے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾(التوبۃ: ۱۲۸) ’’لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آگئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گرزتی ہے ۔ جو تمہاری بھلائی کا دل سے خواہاں ہے۔ جو مسلمانوں پر پرلے درجے کاشفیق اور مہربان ہے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں انسان کو ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کی جماعتوں کو جو فائدے دے رکھے ہیں اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں۔