قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ
فرمایا اے ابلیس! تجھے کیا ہے کہ توسجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوتا ؟
ابلیس کے تین قصور تھے ایک اللہ کے حکم کو نہ مانا اور دوسرے فرشتوں کی جس جماعت میں وہ رہتاتھا سجدہ کرتے وقت وہ اس جماعت سے الگ ہوگیا۔ تیسرے اس نافرمانی پر نادم ہونے کی بجائے تکبر کیا، خود کو بڑا سمجھا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو حقیر سمجھا۔ اور ان سے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ میں آگ سے پیداہوا ہوں اور یہ مٹی سے ۔ لیکن اس نے اس شرف و عظمت کو نظر انداز کردیا جو حضرت آدم علیہ السلام کو حاصل ھواکہ اللہ نے انھیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی ۔اس شرف کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز بھی ہوسکتی ہے ؟ اس کا یہ قیاس فاسد تھا۔ آگ مٹی سے کس طرح بہتر ہے ؟ آگ میں سوائے تیزی، بھڑکنے اور جلانے کے کیاہے؟ جبکہ مٹی میں سکون و ثبات ہے۔ اس میں نبات ونمو، زیادتی اور اصلاح کی صلاحیت ہے یہ صفات بہرحال آگ سے بہتر اور زیادہ مفید ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی۔ ایک حدیث میں آتاہے کہ فرشتے نور سے، ابلیس آگ کی لپٹ سے اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مسلم: ۲۹۹۶)