وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں ایک بشر ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے ہوگی۔
جب انسان کاپتلا تیارہو گیا تو اس وقت اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ’’میں کھنکھناتی مٹی سے ایک بشر پیداکرنے لگا ہوں جب میں اس کی نوک پلک درست کرکے اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم اسی وقت اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا ‘‘ روح پھونکنے سے مقصد یہ تھاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہلکا سا پر تو انسان میں پیداہوجائے اور انسان کو جو دوسری تمام جانداروں سے زیادہ عقل و تمیز قوت،ارادہ و اختیار مختلف اشیاء کے خواص معلوم کرنے کا علم، غور و کر کے نتائج حاصل کرنے کاعلم دیا گیا۔ یہ سب کچھ اسی نفخہ کانتیجہ ہے اور اسی بناء پر انسان کو زمین میں اللہ کا خلیفہ بنایاگیا۔