أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔
کلمہ طیبہ کے لغوی معنی ہیں پاکیزہ بات اور اس سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الااللہ ہے ۔ یہی کلمہ جب عقیدہ وعمل کی شکل اختیار کرلیتاہے تو یہ تمام تر بھلائیوں کی بنیادبن جاتاہے، اور ہر طرح کی برائی کی جڑ بھی کاٹ دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی دعوت کاآغاز اسی کلمہ سے کیاہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال شجر طیبہ ہے: پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کادرخت ہے، اور مومن کی مثال پاکیزہ درخت سے پیش کی گئی ہے۔ جو گرمی ہویا سردی ہر وقت پھل دیتاہے، اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی، آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت پاکیزہ درخت کی طرح مومن ہے اس کی جڑمضبوط ہے ۔ یعنی مومن کا دل لاالہ الا اللہ پر جما ہواہے ۔ اس کی شاخ آسمان میں ہے یعنی اس کی توحید کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ (ابن کثیر: ۳/ ۸۰) صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ۔ جن کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتارہتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ لیکن میں نے دیکھاکہ مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور وہ خاموش ہیں، تو میں بھی چپکا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے جب ہم وہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے وہ تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا۔ (بخاری: ۴۶۹۸) اللہ تعالیٰ نے شجر طیبہ کی چار صفات بیان فرمائیں:۔ (۱)۔وہ طبیب و پاکیزہ ہے۔ اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ، شیریں اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔ (۲)۔ اس کی جڑیں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہوچکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ (۳)۔ اس کی شاخیں آسمان تک یعنی بہت بلند ی تک چلی گئی ہیں اس لیے اس سے جو پھل حاصل ہوگا وہ ہوا کی آلودگی، گندگی اور جراثیم سے پاک صاف ہوگا۔ (۴)۔ یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتاہے،اسی لیے حدیث میں اس درخت کو شجر طیبہ کہاگیاہے۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ کسی نے خدمت نبوی میں عرض کیا: ’’مالدار لوگ تو اجر لے اڑے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاد رکھو! اگر تمام دنیا کی چیزیں لے کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے۔ کیا میں تم لوگوں کو ایسا عمل نہ بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں؟ عرض کیا، وہ کیا ہے؟ تو فرمایا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ ہر فرض نماز کے بعد اس کو دس مرتبہ کہہ لیا کرو۔