وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ
اور وہ سب کے سب اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، تو کمزور لوگ ان لوگوں سے کہیں گے جو بڑے بنے تھے کہ بے شک ہم تمھارے تابع تھے، تو کیا تم ہمیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کچھ بھی کام آنے والے ہو؟ وہ کہیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمھیں ضرور ہدایت کرتے، ہم پر برابر ہے کہ ہم گھبرائیں، یا ہم صبر کریں، ہمارے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں۔
اس آیت میں لوگوں کی اندھی تقلید کاذکر ہے یعنی جو دنیا میں آنکھیں بند کرکے دوسروں کے پیچھے چلنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب وہ اللہ کے حضور حاضر ہوں گے تو اپنے بڑے بزرگوں سے جن کی یہ پیروی کرتے تھے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع فرمان تھے جو حکم تم دیتے تھے ہم بجا لاتے تھے ۔ پس جیسے کہ تم ہم سے وعدے کرتے تھے اور ہمیں تنائیں دلاتے تھے کیا آج اللہ کے عذابوں کو ہم سے ہٹاؤ گے۔ اس وقت یہ پیشوا اور سردار کہیں گے کہ ہم تو خود راہ راست پر نہ تھے تمہاری، رہبری کیسے کرتے ۔ اللہ کی بات ہم پر سچی ہوگئی اور ہم سب عذاب کے مستحق ہوگئے۔ حضرت عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں کہ یہ دوزخی لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ مسلمان اللہ کے سامنے روتے ہوتے تھے اس وجہ سے وہ جنت میں پہنچے ۔ آؤ ہم بھی اللہ کے سا منے روئیں دھوئیں، گڑ گڑائیں ۔ لیکن بے سود رہے گا تو کہیں گے جنتیوں کے جنت میں جانے کی ایک وجہ صبر کرناتھی آؤ ہم بھی خاموشی اور صبر اختیار کریں اب ایسا صبر کریں گے کہ ایسا صبر کبھی دیکھا نہیں گیا، لیکن یہ بھی لاحاصل رہے گا اس وقت کہیں گے کہ صبر بھی بے سود اور بے قرار ی بھی بے نفع ۔ اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔یہ ان کی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی ۔ قرآن کریم میں اس گفتگو کو اور بھی کئی مقامات پر بیان کیاہے۔ مثلاً سورۃ (مومن ۴۷،۴۸، سورۃ الاعراف ۳۸،۳۹،سورۃ الاحزاب ۶۶،۶۱)اس کے علاوہ وہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کاالزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہوگا اس کی مزید تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا ۳۱،۳۳میں بیان فرمائی ہے۔ (ابن کثیر: ۳/ ۷۸)