مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، ان کے اعمال اس راکھ کی طرح ہیں جس پر آندھی والے دن میں ہوا بہت سخت چلی۔ وہ اس میں سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے جو انھوں نے کمایا، یہی بہت دور کی گمراہی ہے۔
بے سودا عمال: شریعت کاایک کلیہ ہے کہ اعمال کی جزا وسزا کا دارومدار نیتوں پر ہوتاہے ۔ یعنی عمل کرتے وقت انسان جیسی نیت کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ پس ان کافروں کی مثال جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے، پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے۔ ان کے اعمال قیامت کے دن جبکہ یہ ان کے پورے محتاج ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ابھی ہماری بھلائیوں کابدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ۔ مایوس اور حسرت سے منہ تکنے لگیں گے، ایسے ہوں گے جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ اُڑا کر ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہوگئے جیسے اس بکھری ہوئی اُڑی ہوئی راکھ کاجمع کر نامحال، ایسے ہی ان کے بے سود اعمال کابدلہ محال وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی ’’ ھَبَآءً مَّنْثُوْراً‘‘ ہو جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَدِمْنَااِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا﴾ (الفرقان: ۲۳) ’’اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انھیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا۔‘‘ سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ مومن پر اس کی نیکی کے سلسلے میں ذرہ سا بھی ظلم نہیں کرے گا اسے اس کی نیکی کابدلہ دنیا میں بھی دیا جائے گا اور آخرت میں بھی ۔ اور کافر نے جو نیک عمل کیے ہوں گے اس کا ان کو دنیا میں ہی بدلہ دے دیا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو کوئی نیکی نہ ہوگی جس کا اس کو صلہ دیاجائے۔ (مسلم: ۲۸۰۸) کافروں کا چونکہ آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور نہ آخرت میں اجر پانے کی نیت سے انہوں نے کوئی کام کیاہوتاہے ۔ لہٰذا آخرت میں ان کے اجر کا سوال ہی پیدانھیں ہوتا اور جو بُرے کام انہوں نے دنیامیں کیے ہوں گے جن میں سب سے بڑا گناہ یہی آخرت کاانکار ہے ان کی سزا انھیں ضرو رملے گی گویا ان کی نیکی برباد اور گناہ لازم والا معاملہ بن جائے گا۔