وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں، تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے، پھر اللہ گمراہ کردیتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
قرآن کا واضح بیان سے مراد: رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو ہم زبان ہونے کے باوجود قرآن کے الفاظ کاصحیح صحیح مفہو م بتانا، اس کی شرح وتفسیر، اس کی حکمت بتانا سب کچھ شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان کا مفہوم بھی مخاطب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذہن میں القا کردیا اور مفہوم کو مخاطب کے ذہن میں متعین کردینا ہی قرآن کا بیان ہے۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے سورت قیامہ میں واضح طور پر فرمایا کہ ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ﴾ (القیامۃ: ۱۹) یعنی قرآن کے ساتھ اس کابیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔ اور قرآن اور بیان دونوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے مثلاً قرآن میں صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ صلوٰۃ کیا چیز، تب تک تعمیل ناممکن ہے ۔ کتاب کی محض اس زبان میں اترنا ہی کافی نہیں ہوتابلکہ بہت سے مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کی تفسیر وتشریح کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن کا بیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی اور اسی بیان کو سنت کہا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی رسول کو اللہ نے اس کی اُمت کی زبان میں ہی بھیجا ہے (مسند احمد: ۸/ ۱۵۸) حق ان پر کھل تو جاتاہی ہے پھر ہدایت وضلالت اللہ کی طرف سے ہے۔ اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا وہ غالب ہے اس کا ہر کام حکمت سے ہے گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں۔