وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ
اور اسی طرح ہم نے اسے عربی فرمان بنا کر اتارا ہے اور یقیناً اگر تو نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس کے بعد جو تیرے پاس علم آچکا تو اللہ کے مقابلے میں نہ تیرا کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا۔
قرآن عربی زبان میں: یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبان میں نازل کیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم نے قرآن عربی زبان میں اتارا ۔ اس لیے کہ آپ اولین مخاطب اہل عرب ہیں جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں اگر یہ قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتا اور قبول ہدایت ان کے لیے عذر بن جاتا ۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتارکر یہ عذر بھی دور کردیا۔ اہل کتاب کی خواہشات: اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اختیار کریں ۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لیے قبلہ بنائے رکھنا ۔ اور ان کے عقائد کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔ علم وحی: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس آسمانی وحی، علم الٰہی آچکا۔ اب بھی اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو یاد رکھو کہ الٰہی عذابوں سے آپ کو کوئی نہ بچا سکے گا اور نہ کوئی آپ کا حمایتی ہوگا۔ دراصل یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں اگر ایسا کریں گے تو انھیں اللہ کے عذاب سے بچانے والاکوئی نہیں ہوگا۔