مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ
اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہ رہی ہیں، اس کا پھل ہمیشہ رہنے والا ہے اور اس کا سایہ بھی۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہے جو متقی بنے اور کافروں کا انجام آگ ہے۔
اہل کفار کے انجام بد کے ساتھ اہل ایمان کا حسن انجام فرمادیاتاکہ جنت کے حصول میں رغبت اور شوق پیداہوا۔ فرمایاان سے جن جنتوں کاوعدہ ہے اس کی ایک صفت تو یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف نہریں جاری ہیں جہاں چاہیں پانی پی لیں،پھر دودھ کی نہریں، دودھ بھی ایسا جس کا مزا کبھی خراب نہ اور شراب کی نہریں جس میں لذت ہی لذت ہو۔ نہ بدمزگی اور نہ بیہودہ نشہ ہو گا۔ اور ہر قسم کے پھل اور ساتھ ہی رب کی رحمت، اس کے پھل ہمیشگی والے ۔ اس کے کھانے پینے کی چیزیں کبھی فنا ہونے والی نہیں۔ جنت کی نعمتوں، لذتوں اور خصوصی کیفیات پر مشتمل احادیث ابن کثیر میں مذکور ہیں، صحیح بخاری میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھاکہ ہم نے آپ کو دیکھاکہ آپ نے کسی چیزکو گویا لینے کاارادہ کیاتھا۔ پھر ہم نے دیکھاکہ آپ پچھلے پاؤں پیچھے کو ہٹنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، میں نے جنت کو دیکھاتھا اور چاہاتھاکہ ایک خوشہ توڑ لاؤں اگر توڑ لیتاتو رہتی دنیا تک وہ رہتااور تم کھاتے رہتے۔ (بخاری: ۹۰۷) ایک روایت میں ہے کہ ایک اہل کتاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ فرماتے ہیں جنتی کھائیں پئیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ ہر شخص کو کھانے پینے اور جماع اور شہوت کی اتنی قوت دی جائے گی جتنی یہاں سو آدمیوں کو مل کر ہو، اس نے کہا اچھا جو کھائے گا،پیے گا اسے پیشاب پاخانہ کی بھی حاجت لگے گی، پھر جنت میں گندگی کیسی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ پسینہ کے راستے سب ہضم ہوجائے گا اور وہ پسینہ مشک بوہوگا۔ (مسند احمد: ۴/ ۳۶۷، ح: ۱۹۲۹۱، بن حبان: ۷۴۲۴) قرآن کریم میں عموماً جنت اور دوزخ کا ذکر ایک ساتھ آتاہے تاکہ لوگوں کو جنت کاشوق ہو اور دوزخ سے ڈر لگے یہاں بھی جنت اور وہاں کی چند نعمتوں کاذکر فرمایاکہ یہ ہے انجام پرہیزگاروں کا اور کافروں کاانجام جہنم ہے اسی لیے فرمایاکہ جنتی اور جہنمی برابر نہیں جنتی بامراد ہیں۔