سورة البقرة - آیت 167

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جن لوگوں نے پیروی کی تھی کہیں گے کاش! ہمارے لیے ایک بار دوبارہ جانا ہو تو ہم ان سے بالکل بے تعلق ہوجائیں، جیسے یہ ہم سے بالکل بے تعلق ہوگئے۔ اس طرح اللہ انھیں ان کے اعمال ان پر حسرتیں بنا کر دکھائے گا اور وہ کسی صورت آگ سے نکلنے والے نہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں میدان حشر کا منظر پیش کیا گیا ہے اور مشرکوں اور ان کے پیروں مرشدوں اور پیروکاروں کے درمیان ہونے والا مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔ جو دنیا میں مریدوں کے مشکل کشا اور حاجت روا بنے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن جواب دہی کی دہشت اورخوف اس قدر زیادہ ہوگا ہر ایک کو اپنی ہی جان کی پڑی ہوگی۔ لہٰذا یہ پیشوا ان مریدوں کی مدد سے انکار کردیں گے بلکہ وہ کہہ دیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر مرید اور پیروكار حسرت کریں گے کہ کاش ہمیں ایک باردنیا میں جانے کاموقعہ مل سکے تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں گے جو آج یہ ہم سے کررہے ہیں ہم بھی ان سے بیزار ہوجائیں گے ایک حسرت تو مرشدوں کی بیزاری پر ہوگی اور دوسری حسرت یہ ہو گی كہ انھوں نے صدقہ خیرات اور نظر و نیاز وغیرہ میں سے جو نیك اعمال كیے تھے وہ ان کے شرک کی وجہ سے ضائع ہوگئے اور بُرے اعمال باقی رہے۔ ان حسرتوں کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا اور نہ دوزخ کے عذاب سے نجات کی کوئی صورت ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن پوچھا جائے گا کیا دنیا بھر کا سونا ہو تو وہ تم فدیہ میں دے دو گے تو انسان کہے گا کہ ہاں مگر اس وقت کچھ بھی قابل قبول نہ ہوگا۔(مسلم: ۲۸۰۵) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِيْنَ۔الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ يَوْمِهِمْ هٰذَا وَ مَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ﴾ (الاعراف: ۵۰، ۵۱)دوزخ کے لوگ جنت کے لوگوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ تھوڑا پانی ہم پر بھی ڈال دو اور جو رزق تمہیں اللہ نے دیا ہے اس میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ کہیں گے کہ ا للہ نے حرام کردی ہیں ،یہ چیزیں ان پر جنھوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا سوہم بھی آج کے دن ان کا نام نہ لیں گے جب انھوں نے اس دن کا نام تک نہ لیا اور جیسا ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ﴾ (المؤمن: ۴۹)’’پھر یہ دوزخ میں پڑے لوگ جہنم كے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے کہیں کہ ہمارے عذاب میں ایک دن کی کمی کردے۔ ‘‘