وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور واقعی اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے پہاڑ چلائے جاتے، یا اس کے ذریعے زمین قطع کی جاتی، یا اس کے ذریعے مردوں سے کلام کیا جاتا۔ بلکہ کام سارے کا سارا اللہ کے اختیار میں ہے، تو کیا جو لوگ ایمان لائے ہیں مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہے تو یقیناً سب کے سب لوگوں کو ہدایت دے دے، اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ہمیشہ اس حال میں رہیں گے کہ انھیں اس کی وجہ سے جو انھوں نے کیا، کوئی نہ کوئی سخت مصیبت پہنچتی رہے گی، یا ان کے گھر کے قریب اترتی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آجائے۔ بے شک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
حسی معجزات دکھلانے بے سود ہیں: قریش مکہ کے حسی معجزات کے مطالبے کا ذکر اس آیت میں کیا جا رہا ہے۔ جو وہ گاہے بگاہے کرتے رہتے تھے۔ مثلاً مکہ کے اردگرد جو پہاڑ ہیں یہاں سے ہٹا دیے جائیں تاکہ ہمارے لیے زمین کشادہ ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں چشمے جاری ہوں، تیسرے یہ کہ ہمارے مرے ہوئے آباء و اجداد میں سے کوئی شخص زندہ ہو کر ہمارے سامنے آکر اس بات کی تصدیق کرے جو آپ دوبارہ جی اُٹھنے کے متعلق بتاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس پر عمل پیرا ہونے سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہو جاتے تو یہی قرآن ہو سکتا تھا۔ مگر تم لوگ پھر بھی ایمان نہ لاتے۔ کیونکہ ایمان لانا نہ لانا یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ معجزوں پر نہیں اسی لیے فرمایا سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ کیا اہل ایمان مایوس نہیں ہوئے: یعنی کافروں کے بار بار حسی معجزہ کے مطالبہ پر بعض دفعہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی یہ خیال آنے لگتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ کافر معجزہ دیکھ بھی لیں تو ایمان نہیں لائیں گے، اگر مطلوبہ معجزہ دیکھ کر کافروں کا ایمان لانا ہوتا تو اللہ انھیں ایسا معجزہ دکھائے بغیر بھی یہ قدرت رکھتا ہے کہ انھیں ایمان لانے پر مجبور کر دے مگر ایسے ایمان کی کچھ قدرو قیمت نہیں۔ قدروقیمت تو انسان اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی سے سوچ سمجھ کر لانے سے ہوگی۔ کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی رہے گی: اس آیت میں خطاب صرف مکہ کے کافروں سے نہیں بلکہ تمام کافروں سے ہے۔ اور پہلے معنی کے لحاظ سے ان مصائب سے مراد قحط، غزوہ بدر میں کافروں کی شکست فاش اور دوسرے مصائب ہیں اور وعدہ ربانی سے مراد فتح مکہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو ان کے گھروں کے قریب پڑنے والی مصیبت مراد صلح حدیبیہ ہے جو انجام کے لحاظ سے کافروں کے حق میں بہت بری ثابت ہوئی۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں کی نصرت اور وامداد کا ہے وہ کبھی ٹلنے والا نہیں انھیں اور ان کے تابعداروں کو ضرور بلندی نصیب ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ﴾ (ابراہیم: ۴۷) یہ غلط گمان ہرگز نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے۔ اللہ غالب ہے اور بدلہ لینے والا ہے۔