إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
یہ آیت اسی لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے جو کسی اور آیت میں نہیں۔ (۱) آسمان و زمین کی پیدائش جس کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں (۲)رات، دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہوسکے اور آرام بھی ۔ پھر رات کا لمبا ہونا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا ہونا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ (۳) سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا۔ جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ (۴)بارش جو زمین کی شادابی اور روئیدگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ (۵) ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش و نقل و حمل کھیتی باڑی اور بعض جانور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ (۶) ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی اور گرم بھی بار آور بھی اور غیر بار آور بھی، شرقی غربی بھی اور شمالی جنوبی بھی انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ (۷) بادل جنھیں اللہ جہاں چاہتا ہے برساتا ہے یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے ۔ یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس کی تخلیق میں اور اس کے نظم و تدبیر میں کوئی شریک ہے نہیں یقیناً نہیں تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود و حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ جب سورۂ بقرہ: ﴿وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرہ: ۱۶۳)’’تم سب کا معبودایک ہی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔ تو اس کے جواب میں کفار نے کہا كہ یہ کیسے ہوسکتا ہے كہ ایک خدا سارے کام کرے؟ جس كے جواب میں یہ مذكورہ آیت (۱۶۴) نازل ہوئی۔ قریش مکہ نے آپ سے دعا کرنے کے لیے کہا کہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنا دیں اللہ تعالیٰ نے نبی سے فرمایا: آپ کہہ دیں کہ میں ایسا ہی کرونگا مگر اس کے بعد نافرمانی کی تو ایسی سزا دوں گا کہ اس سے کوئی بچ نہ سکے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے كہ افسوس ہے اس شخص پر جو اسے پڑھے اور غوروفکر نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو اپنے تعارف کے لیے پیش کیا۔ کائنات کا عظیم ہونا ثابت کرتا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی ہے۔ کائنات میں تضاد ہے لیکن ہم آہنگی کے ساتھ چل رہی ہے۔ کائنات کی ہر شے میں نفع پہنچانے کی صلاحیت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی ہستی ہے جو اس کا انتظام کرنے والی ہے۔ اس کی کوئی چیز بے فائدہ نہیں، بنانے والے نے اسے پورے شعور کے ساتھ بنایا ہے ۔ دنیا خودبخود وجود میں نہیں آگئی ۔ کائنات پر غوروفکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے بیج ہم اگاتے ہیں اس میں بڑھنے کی صلاحیت ہے اور اس کے ثمرات ہم کھاتے ہیں۔ تیزی سے زندہ چیزیں مردہ اور مردہ چیزیں زندہ صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ حیات آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ انسان آج تک معلوم نہیں کر سکا کہ زندگی ختم ہوکر کہاں چلی جاتی ہے۔ زندگی اور موت کس کے اختیار میں ہے: یہ جہاں گواہ ہے کہ پانی اور مٹی ایک مگر اس ایك مٹی سے کروڑوں اور اربوں قسم کی اجناس پیدا ہوتی ہیں۔ پودے پیدا ہوتے ہیں جن كی رنگت ذائقہ ، شکل ہر شے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، انسان آزاد اور خودمختار محسوس کرتا ہے۔ مگر ہواؤں نے کیسے گھیر رکھا ہے کائنات کی ہر شے انسان کی ضرورت کے مطابق ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ خالق کتنا مہربان ہے انسان کے وجود میں آنے سے پہلے ہر چیز کو توازن کے ساتھ قائم کر رکھا ہے۔ وہ حکیم و دانا ہے: زمین كے تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی كا ہے۔ کوئی حکیم اور عاقل ہستی ہے جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے۔ مخلوق اپنے خالق کا پتہ دیتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: ۱۹۰، ۱۹۱)’’ بے شك زمین و آسمان کی پیدائش میں اور دن اور رات کے باری باری آنے میں نشانیاں ہیں اہل عقل کے لیے جنکی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی، لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب آپ نے اس کو لا یعنی نہیں پیدا کیا۔ آپ کی ذات پاک ہے سو آپ ہمیں عذاب دوزخ سے بچا لیجئے۔‘‘ نشانیوں پر غوروفکر کرنے سے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کوئی عظیم ہستی ہے جو یہ سارا نظام سنبھالے ہوئے ہے ۔ اللہ سوال کرتا ہے رب کو پانا چاہتے ہو تو پانی كے اوپر نیچے آنے جانے میں غور کرلو: پانی اوپر کیسے جاتا ہے نیچے کیسے آتا ہے۔ اس خدمت کے لیے سورج کو مقرر کر رکھا ہے۔ اس کی حرارت سے بخارات اوپر اٹھتے ہیں۔ پھر ٹھنڈے ہوکر بارش کی صورت میں زمین پر آتا ہے۔ کیا انسانی ذہن سے یہ ممکن تھا پہاڑوں پر برف باری سے پانی ذخیرہ ہوجاتا ہے اور جب کمی ہوجائے تو حرارت سے پگھل کر بہہ کر انسانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ پہاڑوں پر ایک رنگ کے پھل پھول رنگ رنگ کے، انسان ایک ہی، زمین ایک ہی مٹی اور جانوروں کے کتنے مختلف مزاج شیر بھی بکری بھی ان کو کون بنانے اور چلانے والا ہے۔ انسان کی تخلیقات کی کیا حقیقت اس کے باوجود انسان تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ غرض ان آیات میں رب تعالیٰ نے خوبصورت انداز میں انسان کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ایک ہی معبود ہے۔