وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
سیدنا یوسف کی کسر نفسی: اس آیت کی میں دو قول ملتے ہیں۔ (۱) اگر اسے حضرت یوسف علیہ السلام کا قول تسلیم کیا جائے تو یہ بطور کسر نفسی کے ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی شاندار جیت کے بعد عین ممکن تھا کہ بشری تقاضوں کے تحت آپ کے نفس میں کچھ پندار و غرور سر اُٹھانے لگتا اسی لیے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی نفس کا تو کام ہی یہ ہے کہ برائی کے کاموں پر انسان کو آمادہ کرتا رہتا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت ہے کہ انسان اس برائی سے بچاتا رہتا ہے دوسرا قول(جیسا کہ امام ابن کثیر) کا خیال ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے عزیز مصر کی بیوی کہتی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی۔ نفس انسانی تمناؤں اور بُری باتوں کا مخرن ہے اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں۔اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ اس لیے اللہ بڑا غفور الرحیم ہے معافی دنیا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے۔ اور نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ کی رحمت ہو جیسا کہ یوسف علیہ السلام کو اللہ نے بچا لیا۔